Orhan

Add To collaction

لکھ پھر سے تو نصیب میرا

لکھ پھر سے تو نصیب میرا
از سیدہ
قسط نمبر12

نمل پچھلے دو ہفتوں  سے صفوان کے ساتھ ہی تھی نمل اسے ویلچیر پہ روم سے باہر لے کر آئی تھی۔۔۔۔
ویسے یار بڑا ہی سخت دل ہے تمہارا۔۔۔۔۔مجھ لنگڑے پہ رحم نہیں آتا۔۔۔۔جب سے آئی ہو منہ ہی بنا ہوا ہے صفوان نمل کی وجہ سے بہت خوش تھا۔۔۔
آپ وقتی لنگڑے ہیں ڈاکٹر نے کہا ٹھیک ہو رہے ہیں آپ اور میرا منہ میری مرضی آپ کو پتا ہے میں چلی جاؤنگی اسلئے بے کار میں خوش فہمی نہیں رکھیں نمل نے اسکی ویل چیر کو آگے چلاتے ہوۓ کہا 
یار ایک تو تم جانے کی بات مت کیا کرو۔۔۔ورنہ۔۔۔صفوان کے الفاظ منہ میں رہے گئے تھے سامنے سے دو لوگوں کو آتا دیکھ کر۔۔۔۔۔۔
نمل نے بھی سامنے دیکھا تو وه بھی حیران رہے گئی۔۔۔۔۔
اوہ!واپس آگئی تم۔۔۔۔ذبی نمل کے پاس آئی اہو تم صفوان بچارے۔۔۔۔!!!!ذبی نے منہ بنا کر کہا 
بابر۔۔۔۔!!!صفوان نے ذبی کو نظر انداز کر کے بابر کو دیکھا 
صفوان نے ہاتھ آگے بڑھایا ملانے کے لئے لیکن بابر نظر انداز کر کے ذبی کے پاس آیا 
بابر۔۔۔۔!!!!صفوان کا دل ٹوٹ گیا بابر کی حرکت پہ وه اسکا بہت اچھا دوست تھا 
صفوان تجھے حیرت  ہوئی ہوگی مجھے اور ذبی کو ساتھ دیکھ کے۔۔۔۔اور خاص طور پہ ذبی اس طرح دیکھ کر 
صفوان نمل دونوں ہی خاموش تھے
ہم تمھیں مزید حیران نہیں کریں گے۔۔۔۔میں بابر کے بچے کی ماں بنے والی ہوں۔۔۔۔اب بابر میرا ہسبنڈ ہے ذبی کے ان الفاظ پہ صفوان کی آنکھوں میں آنسوں آگے 
کیا!!!!!!۔۔۔۔لیکن ذبی۔۔۔۔
ذبی چلو۔۔۔ہمیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔بابر نے کہا 
نمل اپنے لنگڑے شوہر کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔ذبی کہہ کار چلی گئی 
نمل جلدی سے صفوان کے سامنے آئی۔۔۔۔صفوان۔۔۔آپ کی آنکھوں میں آنسوں۔۔۔۔۔نہیں اچھے لگتے نمل نے اپنے ہاتھوں سے صفوان کے آنسوں صاف کیے 
نمل مجھے روم میں لے چلو۔۔۔۔نمل صفوان کو روم میں لے گئی۔۔۔۔۔
صفوان میری بات سنیں۔۔۔۔نمل نے صفوان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا 
صفوان نے پلکیں اٹھا کر نمل کی آنکھوں میں دیکھا 
اس دنیا میں سب کو حق ہے  خوش رہنے کا اگر آپ کے چھوڑنے کے بعد بابر نے اسے اپنا لیا تو یہ اچھی بات ہےمجھے پتا ہے آپکو برا لگ رہا ہوگا اپنے اسکے ساتھ ایک وقت گزارا ہے۔۔۔۔۔
مجھے پتا ہے ذبی میری وجہ سے مجھے چھوڑ کر گئی تھی میں تمھیں تلاش کرنے میں اتنا مصروف ہو گیا تھا کے میں اسے بھول ہی گیا تھا 
صفوان جو ہوتا ہے اس میں ا رب کی مصلحت ہوتی ہے ہمیں اسکے فیصلہ کو قبول کرنا ہوتا ہے۔. .  یہ ہونا تھا ہو گیا آپ خود کو قصوروار مت سمجھیں 
ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔
اب آپ آرام کریں میں نماز پڑھ لوں۔۔۔۔۔نمل صفوان کو لیٹا کر خود نماز کے لئے کھڑی ہوگئی 
نمل نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھے۔۔۔۔میرے مالک میں نہیں جانتی میرے نصیب میں کیا ہے آگے۔۔۔مجھے جو ٹھیک لگ رہا ہے میں وه کر رہی ہوں لیکن تو جو کرے گا وه سب سے بہترین ہوگا۔۔۔۔۔میرے مالک اس فقیر کو تونے مجھے راستہ دیکھانے کے لئے بھیجا تھا مالک میں بے بس ہو میری مدد کر اور میرے  اَللّهُ صفوان کو دوبارہ انکے پیروں پہ کھڑا کردے میں جانتی ہوں انہوں بہت کچھ غلط کیا ہے لیکن اب وه سیدھی راہ پہ ہیں ان پہ رحم کر رحمن۔۔۔۔۔۔۔نمل آنکھیں بند کر کے دعا میں مصروف تھی اسکی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہی تھے۔۔۔صفوان خاموشی سو اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔نمل نے آنکھیں کھولی تو صفوان اسے ہی دیکھ رہا تھا 
آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں نمل نے آنسوں صاف کرتے ہوۓ کہا 
بس آنکھوں کو سکون دے رہا تھا تمہارا دیدار کر کے۔۔۔۔
ان آنکھوں کو میرے دیدار کی عادت مت ڈالیں۔۔۔۔
ہاے نمل۔۔۔میری نمل۔۔۔۔تم بھول رہی ہو جس رب سے تم مجھسے دور جانے کی دعا مانگ رہی نہ میں بھی اسی ہی رب سے تمھیں پاس لانے کی دعا مانگ رہا ہوں اب دیکھنا یہ ہے کے کس کی دعا میں زیادہ طاقت ہے صفوان نے اتنے پر اعظم لہجے میں کہا کے نمل کو لگا شاید اب اسی ہی دعا قبول ہوگی۔۔۔۔۔
نمل نے جواب نہیں دیا.۔۔۔۔۔اور اٹھ کر باہر چلی گئی 
_______________
آج صفوان ہسپتال سے ڈسچارج ہونے والا تھا صفوان صبح سو کر اٹھا تو روم۔ شفع تھا 
شفع تو یہاں ؟ 
اٹھ گیا تو۔۔۔۔۔ہاں میں بس کچھ دیر پہلے آیا ہوں۔۔۔۔نمل کہاں ہے۔۔۔۔؟
روم میں تھی مجھے نہیں پتا۔۔۔۔۔۔
اچھا لیکن جب میں آیا تھا تو تو اکیلا ہی تھا۔۔۔۔۔
لیکن وه صبح صبح کہاں جائے گی صفوان کو اب فکر ہو رہی تھی۔۔۔
تو فکر نہیں کر میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔شفع  کہہ کر روم سے باہر چلا گیا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد واپس آیا 
کیا ہوا ملی۔۔۔۔؟ 
نہیں یار ہسپتال میں تو نہیں ہے رک فون کرتا ہوں۔۔۔۔۔شفع نے کافی دفع ٹرائی کیا لیکن فون بند تھا 
شفع وه چلی گئی مجھے پتا ہے وه کہہ رہی تھی وه چلی جائے گی دیکھا چلی گئی۔۔۔۔۔صفوان سر پکڑ کے بیٹھ گیا 
لیکن ایسے کیسے چلی جائے گی وه۔۔۔۔؟
نہیں پتا مجھے۔۔۔۔۔۔۔میں پھر ویران ہوگیا۔۔۔۔۔مجھے کب معافی ملے گی ۔۔۔۔۔صفوان کی آنکھوں سے آنسوں بہنا شروع ہوگے 
سمبھال خود کو یار تو۔۔۔۔
وه نہیں رہنا چاہتی میرے ساتھ اور رہے گی بھی کیوں اب جو اس حال میں ہوں۔۔۔۔۔
صفوان۔۔۔۔۔یار۔۔۔۔۔۔کس نے کہہ دیا آپ سے یہ شفع کی بات ادھوری ہی تھی تبھی دروازہ کھولا۔۔۔۔۔اور نمل کی آواز آئی 
نمل۔۔۔۔۔صفوان کو نمل کو دیکھ کر سکون ملا۔۔۔۔۔
کہاں چلی گئی تھی تم۔۔۔۔بتا تو دیتی۔۔
آپ سو رہے تھے اسلئے نہیں بتایا کام سے گئی تھی۔۔۔۔
شکر ہے مجھے لگا شاید تم مجھے چھوڑ کر چلی گئی 
ہاں ان کو لگا تم چلی گئی اور یہ صاحب پاگل ہوگے تھے کہ اب میرا کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔شفع نے صفوان کا مذاق اڑاتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔
ہاں بس کر مذاق نہیں بنا میری بے بسی کا۔۔۔۔۔۔۔۔
صفوان شفع سے بتائیں ہی کر کر رہا تبھی ڈاکٹر آے۔۔۔۔
ہممم۔۔۔۔جانب آپ تو بہت ٹھیک ہوگے ہیں۔۔۔۔۔
شکر ہے مالک کا۔۔۔۔
مالک کے ساتھ اپنی وائف کا بھی شکریہ ادا کریں انہوں نے اتنا خیال رکھا ہے آپکا اس ایک مہینے میں 
صفوان نمل کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔
ہاں تو صفوان آپ کافی بہتر ہوگے ہیں اب آپ سہارا لے کر چل رہے  ہیں۔۔۔۔إنشاءاللّه کچھ دنوں آپ مکمل ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔۔آج آپ کو میں ڈسچارج کر رہا ہوں لیکن اپنے ویکلی چیککپ کے لئے آنا ہے۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے ڈاکٹر۔۔۔۔
سکینہ شایان صاحب کے زور دینے پر نمل گھر آگئی تھی لیکن وه صفوان سے پہلے کہہ چکی تھی وه اسکے ٹھیک ہوتے ہی چلی جائے گی۔۔۔۔۔۔
نمل اتنے وقت بعد گھر آئی تھی اسے سکون سا ملا تھا۔۔۔۔۔صفوان اپنے روم میں سو رہا تھا اسلئے نمل سب سے کافی دیر باتوں میں لگی رہی 

   1
0 Comments